نام ونسب: اسم گرامی :محمد حفیظ اللہ، لقب: مفتی اعظم کانپور اور تخلص: عاصم ہے۔ سلسلہ نسب :"محمد حفیظ اللہ بن حاجی امانت اللہ بن محمد موسیٰ بن عبد الغفور بن عبد الوہاب بن عبد اللہ "ہے۔
ولادت: آپ ٢٠ستمبر١٩٣٧ مطابق١٣٥٧ میں کریم الدین پور گھوسی، ضلع اعظم گڑھ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت :آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی ،متوسطات تک مدرسہ شمس العلوم گھوسی میں علم حاصل کرتے رہے پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے مدرسہ اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ میں داخلہ لیا اور١٠ شوال مکرم ١٣٧٥مطابق١٩٥٥ میں سندفراغت سے نوازے گئے ۔
معروف اساتذہ : جن مقدس ہستیوں کی بارگاہ میں آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا ان کے اسما درج ذیل ھیں:
(١)جلالة العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی(٢) شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی (٣)حافظ عبدالرؤف بلیاوی (٤) استاذ العلماء علامہ عبد المصطفی اعظمی (٥)امام النحو مفتی عبدالعزیز صاحب فتحپوری(٦) شیخ العلماءمولانا غلام جیلانی اعظمی (٧)مولانا مظفر حسن ظفر ادیبی علیہم الرحمہ۔
بیعت وخلافت :١٥ فروری ١٩٥١ بروز پنجشنبہ عرس امجدی کے موقع پر قادری منزل میں حضور مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا خان نوری علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔
١٣ نومبر ١٩٩٩ مطابق ٥ شوال مکرم ١٤٢٠ کو مدرسہ وارثیہ فرید العلوم شاردا نگر کانپور کے جلسہ دستاربندی میں حضرت سید نجیب حیدر میاں صاحب نائب سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ نے چاروں سلسلہ یعنی قادریہ ،نقشبندیہ ،سہروردیہ اور چشتیہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔
درس و تدریس: فراغت کے بعد آپ نے سب سے پہلے مدرسہ اسلامیہ قصبہ شاہ ضلع بریلی میں تقریبا چار ماہ تک تدریسی خدمات انجام دیں .اس کے بعد مدرسہ تدریس الاسلام ڈیلی ضلع بستی میں ١٩٥٧ تک، مدرسہ اسلامیہ پرانا گورکھپور میں ١٩٥٨تا١٩٥٩،مدرسہ ارشاد العلوم آزاد نگر جمشید پور میں ١٩٦٠ تا ١٩٦١ تدریسی خدمات انجام دیں١٩٦٧ سے آخری عمر تک دارالعلوم اشرفیہ احسن المدارس جدید رجبی روڈ کانپور میں بحیثیت صدر المدرسین وشیخ الحدیث درسی خدمات کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
شعر و شاعری: آپ کے فارسی کے استاذ مولانا محمد سعید حسن قمر فتح پوری شاعر تھے اور عمدہ شعر کہتے تھے ان کے اشعار سن کر شوق پیدا ہوا اور دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم میں داخلہ کے بعد یہ شوق بڑھ گیا اور اس فن میں بھی زور آزمائی کرنے لگے ،نمونے کے طور پر چند اشعار درج ذیل ہیں:
٤ اپریل ١٩٩٨ میں جب آ پ حج بیت اللہ کو گئے تو مزار نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کلام کے ذریعے بارگاہ ایزدی میں التجا کی:
کھڑا ہے سامنے مجرم تمہارا یا رسول اللہ
کرم کی بھیک مل جائے خدارا یا رسول اللہ
میں پھیلائے ہوئے آیا ہوں دامن ہند سے در پر
مرادوں سے اسے بھر دو خدارا یا رسول اللہ
خدا کا شکر دیرینہ تمنا اب ہوئی پوری
کہ ہے پیش نظر روضہ تمہارا یا رسول اللہ
حضوری میں لیے یہ آرزو استادہ ہے عاصم
ملےاذن حضوری پھر دوبارہ یا رسول اللہ
تصنیف و تالیف :گوناگوں مصروفیات کے باوجود آپ نے مختلف کتب اور رسائل تصنیف فرمائیں جو مقبول عام ہے ،چند درج ذیل ہیں: (١)مضامین القرآن (٢)فقہائے حنفیہ (٣)رسالہ راہ نجات(٤) رسالہ ابن تیمیہ (عقائد)(٥) مختصر حیات اعلی حضرت۔
محمد حسنین مصباحی کانپوری
No comments:
Post a Comment