Thursday, 19 September 2019

حضرت علامہ مولانا مفتی محبوب اشرفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ

سرزمین کان پور محتاج تعارف نہیں وہ علم و فن اور صنعت و حرفت ہر لحاظ سے لوگوں کی منظورنظر رہی ہے۔جہاں اس کی زرخیزی عالم صناعی میں قابل دید ہے وہیں اس کی مردم خیزی بھی اپنا الگ رنگ جماے ہوئے ہے۔یہ ہر دور میں علما و صلحا کی جولان گاہ رہی ہے کسی نے تو اسی سرزمین پر آنکھ کھولی اور کسی نے اپنا مسکن بنا کر اسے زینت بخشی۔انھیں علماے عصر میں مفتی محبوب اشرفی علیہ الرحمہ کی ذات بھی شامل ہے جنھوں نے اس سرزمین کو اپنی قدوم میمنت سے سرفراز فرمایا۔
      نام و نسب:۔ آپ کا نام محمد محبوب ہے اور والد کا نام عبداللہ ہے آپ اعظم گڑھ کے مردم خیز علاقے مبارک پور کے ایک نواحی  قصبہ نوادہ میں تقریبا ١٩١٧/ ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا مختصر سلسلۂ نسب یہ ہے محمد محبوب بن عبداللہ بن فرید۔
      تعلیم و تربیت:۔ آپ نے ناظرۂ قرآن محلے کے ایک مکتب میں جناب عبد الغفار صاحب سے مکمل کیا آپ نے اسے ٦/مہینے میں ہی پائے تکمیل تک پہنچا دیا۔اس کے بعد قدیم مصباح العلوم (حضور حافظ ملت کی تشریف آوری سے پہلے) میں حضرت مولانا شمس الحق صاحب سے درس نظامی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔آپ انتہائی زیرک و فطین تھے لہذا مدرسے کے خرچ پر اور اراکین کی توجہ کی بنا پر اعلی تعلیم کے لئے عظیم دینی درس گاہ بریلی شریف تشریف لے گئے جہاں حضور صدرالشریعہ سے اکتساب فیض کیا پھر میرٹ تشریف لے گئے اور جب حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ مبارک پور تشریف لے آئے تو آپ بھی ان کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔اور بعد تکمیل آپ کو دستار فضیلت سے سرفراز کیا گیا۔
      تدریسی خدمات:۔ سب سے پہلے کلکتہ کی درس گاہ کو زینت بخشی کچھ دنوں بعد مدرسہ بحرالعلوم مئو تشریف لے گئے اور پھر جامعہ فاروقیہ بنارس میں کچھ دنوں تک علمی فیضان جاری رہا لیکن آخر میں حضرت شیخ العلماء علامہ غلام جیلانی گھوسوی علیہ الرحمۃ کے حکم پر سرزمین کان پور میں جلوہ افروز ہوئے اور مستقل طور پر احسن المدارس قدیم میں مسند آرا ہو گئے اور دنیا کی ہنگامہ خیزیوں سے کنارہ کش ہوکر علما کی فوج تیار کرنے میں لگ گئے آپ کے مشہور تلامذہ میں سے بعض درج ذیل ہیں:۔ 
      حضرت علامہ عبد الجلیل صاحب فتح پوری،حضرت علامہ و قاری عبدالسمیع صاحب سابق قاضی شہر کان پور اور حضرت علامہ عبد الرحیم گونڈوی ثم کان پوری۔
      آپ نے اپنی ان تھک کوششوں سے احسن المدارس کو علم و فن اکی آماجگاہ بنا دیا۔
      بیعت و ارادت:۔ آپ مرشد برحق حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھوی علیہ الرحمۃ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔آپ کے مرشد گرامی نے بارہا آپ کو خلافت دینے کی کوشش کی لیکن آپ ہر باردست بستہ عرض گزار ہوئے کہ مجھے صرف آپ کی غلامی چاہیے میں دوسروں کو مرید بنانے کے لائق نہیں۔
      مثالی کانفرنس:۔ آپ نے دین حق کی عمر بھر نشرواشاعت فرمائی آپ کی مجاہدانہ کاوشوں کی بنا پر ١٩٦٣/ء میں کان پور میں ایک عظیم کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں علما کا ایک جم غفیر امڑ آیا ناظرین کا بیان ہے کہ ایسی محفل کبھی نظروں سے نہیں گزری ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک نورانی قافلہ ہے جو اپنا فیض سامعین پر برسا رہا ہے۔
      وفات:۔ آپ نے زندگی کی آخری سانسیں اپنے وطن عزیز میں لیں۔وفات سے چند سال قبل آپ  دارالعلوم غوثیہ اشرفیہ میں جس کو آپ کے صاحب زادے مفتی محمد احمد اشرفی صاحب نے قائم کیا تھا شیخ الحدیث و سرپرست کے منصب پر فائز ہوئے وفات سے تقریبا ایک سال قبل ہی سے طبیعت کی آنکھ مچولی شروع ہوگئی جس کی بنا پر آپ وطن مالوف لوٹ گئے اور وہیں پر تین شوال ١٤١٣/ھ مطابق ٢٧/مارچ ١٩٩٣/ء بروز شنبہ علم وحکمت کا یہ آفتاب اپنے خالق حقیقی کے جوار میں حاضری کے لئے رخصت ہو گیا آپ کی نماز جنازہ آپ کے خلف اکبر مفتی محمد احمد اشرفی صاحب نے پڑھائی۔
     آپ متبع شریعت اور شعائر دینی کا پاس رکھنے والے تھے تلاوت قرآن سے خاص شغف تھا ماہ رمضان میں دس پندرہ پارے ایک دن میں پڑھ لیتے تھے  کبھی کبھار تو پورا قرآن پاک ختم کرلیتے تھے اللہ آپ کا فیض ہم سب پر جاری فرمائے۔آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔(ماخوذ از ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور اگست ١٩٩٣ء)                                                                                            
  نورالہدی

No comments:

Post a Comment