نام و نسب:۔ آپ کا نام احمد حسن اور لقب استاذ زمن تھا آپ ٣/ صفر المظفر ١٢٩٦ھ کو ڈسکہ ضلع حصار پنجاب میں ایک صدیقی گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کا سلسلۂ نسب حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کے واسطے سے خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچتا ہے۔
تعلیم وتربیت:۔ ابتداء آپ کی توجہ حصول علم کی طرف نہ تھی لیکن عنفوان شباب کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی آپ کو اس بات کا احساس ہو گیا لہذا آپ نےاپنی بنیادی تعلیم اپنے برادر خورد حافظ موسی اور والد محترم مولانا عظمت اللہ صاحب سے حاصل کی۔اس کے بعد آپ نے متعدد جگہ مثلا ملتان،پیشاور،پانی پت،چڑیا کوٹ وغیرہ کا سفر کیا لیکن آپ کی علمی تشنگی کان پور میں آکر ختم ہوئی چناں چہ آپ یہاں آنے کے بعد علامہ مفتی لطف اللہ علی گڑھی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپ کے علمی فیضان سے سیراب ہوئے۔آپ نہایت قوی الحفظ اور رسا ذہن کے مالک تھے۔٦٠/ متون آپ کو ازبر یاد تھے اسی لیے آپ کو ملا متون کہا جاتا تھا۔
تدریسی خدمات:۔ فراغت کے بعد آپ نے کان پور کے مشہورِ زمانہ مدرسہ فیض عام میں مسند صدارت کو زینت بخشی متعدد علوم و فنون کی کتابوں کا روزانہ پوری قوت و توجہ کے ساتھ تقریبا ١٥/ گھنٹے درس دیا کرتے تھے شام،موصل،حلب،بخارا،افغانستان وغیرہ کے علما نےبکثرت آپ سے درس لیا۔
بیعت و خلافت:۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں حاضر ہو کر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمتة اللہ تعالی علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہو کر خلافت سے سرفراز ہوئے اس طرح آپ سلسلۂ چشتیہ صابریہ سے منسلک ہو گئے۔
حج و زیارت:۔ آپ تین مرتبہ حج کی دولت سے سرفراز ہوئے اور ہر بار حرمین شریفین میں سال دو سال قیام کیا۔
تصانیف:۔ آپ کی تصانیف میں قرآن کریم کی بے نظیر (قلمی) تفسیر،تنزيه الرحمن عن شائبة التكذب و النقصان،شرح حمداللہ،افادات احمدیہ،شرح ترمذی،مولانا روم کی مثنوی کی شرح-شرح امدادیہ-پر حاشیہ شامل ہیں۔
اخلاق اور عادات و اطوار:۔ آپ حق شناس اور حق کو قبول کرنے والے تھے اگر کبھی حق آپ کے مخالف ہوتا تو اس کے ظاہر ہوجانے کے بعد آپ اپنی بات پر اڑے نہ رہتے بلکہ فورا اپنی بات سے رجوع کرلیتے،لوگوں کو خوب نصیحت فرماتے،سائلوں کو خوش آمدید کہتے،کم گو،انصاف ور،مصیبتوں پر صبر کرنے والے اور اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کرنے والے تھے۔
دینی کد و کاوش اور معاصرین کی معاونت:۔ آپ ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہے۔ندوۃ العلماء کی تنظیم کے ابتدائی زمانے میں غیرمقلدوں نے جو مفاسد پیدا کیے ان کو دور کرنے کی جدوجہد میں آپ نے مکمل کوشش کی اور حضرت محدث سورتی اور امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہما کی بھرپور معاونت فرمائی۔اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ سے آپ کو دلی شغف تھا۔چناں چہ مدرسہ فیض عام میں اصلاح نصاب کے سلسلے میں آپ نے اعلی حضرت اور علامہ عبدالقادر بدایونی کو کانپور آنے کی دعوت دی تو یہ دونوں حضرات کان پور تشریف لائے۔
وصال:۔ آپ نے عمر کی بہت ہی کم بہاریں دیکھیں چناں چہ 3 صفر المظفر ١٣٢٤/ ھ کو آپ نے اس دنیا کو خیرآباد کہہ دیا اور مالک حقیقی سے جا ملے۔آپ کی نماز جنازہ علامہ شاہ عادل کان پوری رحمتہ اللہ علیہ نے پڑھائی اور سباطی قبرستان کان پور میں سپرد خاک ہوئے۔
محمد قاسم اشرفی
No comments:
Post a Comment